EN हिंदी
شعاع امید | شیح شیری
shua-e-ummid

نظم

شعاع امید

علامہ اقبال

;

سورج نے دیا اپنی شعاعوں کو یہ پیغام
دنیا ہے عجب چیز کبھی صبح کبھی شام

مدت سے تم آوارہ ہو پہنائے فضا میں
بڑھتی ہی چلی جاتی ہے بے مہریٔ ایام

نے ریت کے ذروں پہ چمکنے میں ہے راحت
نے مثل صبا طوف گل و لالہ میں آرام

پھر میرے تجلی کدۂ دل میں سما جاؤ
چھوڑو چمنستان و بیابان و در و بام