EN हिंदी
شور آلود | شیح شیری
shor-alud

نظم

شور آلود

سلمان ثروت

;

ایک مدت ہوئی
دشت‌ آواز میں

کوئی تنہا صدا
خامشی کی نوا

میں نہیں سن سکا
گوش مفلس مرے

اب ترسنے لگے ہیں
کہ فطرت کی آواز غم ہو گئی

زندگی اپنے ہنگام میں کھو گئی
شورش گوش و لب

کاش کہ تھم سکے
تو مجھے خود کلامی کا موقع ملے

میں تخیل کی آہٹ سنوں
اور تخلیق کے ان سنے گیت گانے لگوں

شور و غل کے تعفن زدہ ایسے ماحول میں
یہ فقط خواب ہے

اب کہاں
وہ خلاؤں کے جیسا سکوت ازل

وہ سمندر کی تہ کا سکون ابد
اس خرابے میں اب

ساز و آواز کی
مخملی ڈوریاں

خار‌‌ و خاشاک ہونے لگیں
درد آثار ہونے لگیں

اک گھٹن سی فضاؤں میں پیوست ہے
دور ایجاد کی

مستقل گڑگڑاہٹ
سماعت کو بنجر کئے جا رہی ہے

خیالات مفلوج ہونے لگے ہیں
مری روح وحشت زدہ ہے

سر عرصۂ خستگی
خامشی لاپتہ ہے