رونے کی عمر ہے نہ سسکنے کی عمر ہے
جام نشاط بن کے چھلکنے کی عمر ہے
شبنم کی بوند پی کے چٹکنے کی عمر ہے
گلشن میں پھول بن کے مہکنے کی عمر ہے
صد مرحبا یہ گمرہیٔ شوق چشم و دل
ہاں راہ آرزو میں بھٹکنے کی عمر ہے
اک جرم ہے خیال و تصور گناہ کا
یہ عمر صرف پی کے بہکنے کی عمر ہے
دیوانہ بن کے نجد کے صحرا میں گھومیے
لیلیٰ کی جستجو میں بھٹکنے کی عمر ہے
بے چین کیوں ہو روح کسی ایک کے لئے
ہر ماہ وش پہ جان چھڑکنے کی عمر ہے
اس دور انبساط میں بہ حالت جنوں
ہر کوئے دلبراں میں بھٹکنے کی عمر ہے
لازم نہیں کہ خود کو بچاتا پھروں تمام
شیشہ ہوں چوٹ کھا کے درکنے کی عمر ہے
تسکیں وہ دے رہی ہیں پر اے قلب ناصبور
تو اور بھی دھڑک کہ دھڑکنے کی عمر ہے
جب چل پڑا ہوں گھر سے تو منزل کی شرط کیا
ہوں رہ نورد شوق بھٹکنے کی عمر ہے
ہوں آفتاب تازہ ہوا ہوں ابھی طلوع
اپنے جہان نو میں چمکنے کی عمر ہے
ایوان و تخت و تاج ہیں میری لپیٹ میں
شعلہ ہوں میں یہ میرے بھڑکنے کی عمر ہے
دوراںؔ میں بزم دوست میں چھیڑوں نہ کیوں غزل
یہ زمزمے کے دن ہیں لہکنے کی عمر ہے
نظم
شعلۂ طرب
اویس احمد دوراں