افق کی منڈیروں پہ
دن کا تھکا ماندہ سورج کھڑا تھا
اور اس کا بدن سرخ شالوں کی زد میں جھلستا رہا
وہ چپ چاپ گم سم
خلاؤں کو تکتا رہا
ایک گونگا تماشائی بن کر
یکایک خلاؤں کی پہنائیوں میں
پس پردۂ شب سے
اک چیخ ابھری
وہ مغرور سورج
جو اپنی تکمیلی شعاعوں کے زہریلے کانٹوں سے
معصوم دھرتی کا سینہ کھرچتا رہا تھا
کسی سرد پتھر کی مانند چپ ہو گیا
اندھیروں کی یلغار سے
دم بخود رہ گیا
نظم
شکست
رئیس مینائی