مرے کلیجہ کی رگ رگ سے ہوک اٹھتی ہے
مجھے مری ہر شکستوں کی داستاں نہ سنا
نہ پوچھ مجھ سے مری خامشی کا راز نہ پوچھ
مرے دماغ کا ہر گوشہ دکھ رہا ہے ابھی
فضائے ظلمت ماضی میں اے مرے ہمدم
ڈھکے ڈھکے سے مری کامرانیوں کے نشاں
اداس اداس نگاہوں کی شمع سے نہ ٹٹول
ہر اک کے سینہ پہ بار شکست ہے اس وقت
ترا خلوص مری داستاں کا عنواں ہے
مرے حبیب مجھے اب تو اپنی مہلت دے
کہ اپنے درد کو دل میں چھپا کے غم خوردہ
جہاں سے دور کہیں اس طرف نکل جاؤں
وہ دیکھ وقت کے چہرے پہ صاف لکھا ہے
کہ یہ شکست مری آخری شکست نہیں
نظم
شکست
عابد عالمی