EN हिंदी
شکست | شیح شیری
shikast

نظم

شکست

اختر پیامی

;

گھنے درخت کے سائے میں کون بیٹھا ہے
تصورات کی سو مشعلیں جلائے ہوئے

ریاض و فکر کی لہریں جوان چہرے پر
سیاہ زلف مشیت کا دل چرائے ہوئے

یہ اضطراب کہ اندر کا دل دھڑکتا ہے
یہ ارتعاش کہ کہسار تھرتھرائے ہوئے

یہ آدمی نہ کہیں ضبط زندگی سہہ کر
مجھی سے چھین لے میرے کنول جلائے ہوئے

کہو کہو کسی رنگین تیتری سے کہو
کہ اپنے ہونٹوں پہ نغموں کا بار اٹھائے ہوئے

زمیں کی سمت روانہ ہو بجلیوں کی طرح
جلا کے راکھ ہی کر دے محل بنائے ہوئے

وہ مینکا نے فضاؤں میں راگ چھیڑا ہے
وہ گھنگھروؤں کی صدائیں زمیں اٹھائے ہوئے

رشی کی آنکھوں میں اس راگنی سے دیپ چلے
لبوں سے کھینچ لیا رس نظر ملائے ہوئے

سنا ہے آج بھی اندر کا تخت باقی ہے
وہی ہیں رنگ محل اب بھی جگمگائے ہوئے

مگر ابھی مرے ماتھے پہ نور رقصاں ہے
مری شکست سے پروردگار لرزاں ہے