EN हिंदी
شکست رنگ | شیح شیری
shikast-e-rang

نظم

شکست رنگ

کشور ناہید

;

مجھے مغلوب کرنے کو
مرے جذبات کے اندوختہ حیلوں کو اکسا کر وہ کہتے ہیں

تری آنکھوں تری بانہوں میں
جنت کے شگوفوں کی مہک

آسائشوں کی لذتوں کا لمس رچتا ہے
مگر اب خواہشیں پاؤں پکڑتی ہیں

نئے خوابوں کے جالوں میں الجھتے سانس کہتے ہیں
کبھی تو پھیلے ہاتھوں کے تموج میں سمٹ جانے کی ترغیب و اشارت کو

گزرتی ساعتوں سے ماورا ایسے زمانوں کی
فضا سمجھو

جہاں سائے سمٹ کر ایک ہوں
تسليم جاں تک کی ہمک جاگے

کبھی ٹھہرو
کبھی بڑھتی ہوئی موجوں سے ہم آغوش ہوتی

تیز لہروں کی فضا ہونے میں
یک جانی کی پنہاں سر خوشی دیکھو

کبھی اس جبر بے انداز کے پھندے سے نکلو
اور رچو اس میں کہ وہ خود تم میں رچنے کے لئے بیتاب دائم ہے

رچاؤ ہاتھ میں اس طرح مہندی
لوگ کہہ اٹھیں

اسے چاہت کی بے پایاں تپش کی حدتیں گلزار کرتی ہیں
رچاؤ ہاتھ میں اس طرح مہندی

یہ تپاں ننگی ہتھیلی اپنا پیکر
سرخیوں سے ڈھانپ لے ایسے

کہ دل کے تشنگی آثار جذبے بھی
تذبذب کے دھندلکوں سے نکل کر

روز و شب کی نغمگی کو جذب کرنے پر ہوں آمادہ
مگر رنگوں کو آخر

جبر بے رنگی کا خمیازہ مقدر ہے
اگر یوں اپنے ہاتھوں سے لگائی مہندیوں کے رنگ اڑ جائیں

تو حسرت زدہ آنکھیں کسے چاہیں
کسے پابند در سمجھیں

کسے ڈھونڈیں