EN हिंदी
شکست جام | شیح شیری
shikast-e-jam

نظم

شکست جام

امجد نجمی

;

گر گیا یہ دودھ کا پیمانہ میرے ہاتھ سے
ہو گئی اک لغزش مستانہ میرے ہاتھ سے

یوں زمیں پر جا گرا ہاتھوں سے میرے چھوٹ کر
گر پڑے گردوں سے جیسے کوئی تارا ٹوٹ کر

غش اسے آیا کچھ ایسا کھا کے چکر گر پڑا
ہاتھ سے مے خوار کے کیوں آج ساغر گر پڑا

شاخ گل سے فرش پر بلبل تڑپ کر گر گئی
یہ گرا نیچے کہ مجھ سے چشم ساقی پھر گئی

جس طرح سینے کے اندر قلب مضطر بے قرار
ہو گیا ہاتھوں میں میرے یہ بھی آ کر بے قرار

میرے باعث اپنی قسمت کو یہ آخر رو گیا
آئی اک آواز جھن سی اور ٹھنڈا ہو گیا

اس کے گرنے سے یہاں اک چوٹ دل پر آ گئی
جو مجھے کچھ کہہ گئی بتلا گئی سکھلا گئی

یعنی ہم بھی دست قدرت میں مثال جام ہیں
اور گرفتار بلائے گردش ایام ہیں

جام وہ مشہور ہے جو زندگی کے نام سے
جو بھرا ہے شیر راحت سے مئے آلام سے

ایک دن اس ہاتھ سے بھی چھوٹ کر رہ جائے گا
اس کٹورے کی طرح جو ٹوٹ کر رہ جائے گا