EN हिंदी
شکایت | شیح شیری
shikayat

نظم

شکایت

یوسف ظفر

;

شفق کی دلہن اپنے غرفے سے کب تک مجھے دیکھ کر مسکراتی رہے گی
سنہری لبادے کی زر کار کرنیں کہاں تک یوں ہی گنگناتی رہیں گی

کہاں تک زمرد کے پردے پہ یہ سرخ پھولوں کے نغمے مچلتے رہیں گے
کہ آخر کوئی چاند کوئی اندھیرا کسی شرق تیرہ کے در سے نکل کر

ابھی اس کو پہنائے گا تیرگی کا وہ جامہ کہ اس کی جواں ریت امنگیں
ستارے اڑاتی ہوئی ڈوب جائیں گی مغرب کی خاموش خونیں خلا میں

شفق کی دلہن جھانک کر دیکھتی ہے
مجھے دیکھتی ہے

مرے دل کے بجھتے ہوئے سرخ شعلوں کی پرواز بے کار کو دیکھتی ہے
کہ یہ زندگی جو ودیعت ہوئی تھی کہ ہر سمت سیلاب نغمہ بہا دے

حصول مسرت کی خاطر ہر اک سنگ خارا کو اک مرمریں بت بنا دے
وہ بت جو ہر اک تان پر مسکرا دے ہر اک سمت سیلاب نغمہ بہا دے

ہر اک نغمہ تاریک راتوں کے سینوں کو یوں گدگدا دے
کہ تاریکیوں سے وہ انوار پھوٹیں جنہیں آفتاب سحر خود صدا دے

مگر اب یہی زندگی بجھ رہی ہے زمانے کے بیتاب آب رواں میں
شفق کی دلہن جھانک کر دیکھتی ہے کسے دیکھتی ہے مجھے دیکھتی ہے

مجھے دیکھتی ہے تو میں اپنے غرفے کی بانہوں کو ملنے کی تاکید کر دوں
کہ میں تو اسی حال میں رات دن وقت کے نور و ظلمت میں گھلتا رہا ہوں

مرے پاس کوئی سنہری لبادہ نہیں ہے نہ کوئی زمرد کے پردے
مجھے بے سبب دیکھنے میں ہے کیا اب کہ میں اس کو حاصل نہیں کر سکوں گا

مجھے اپنی دن بھر کی تھک ہار کر میرے پاس آنے والی دلہن سے غرض ہے
مری زرد رو ملتجی اور بے حس دلہن مجھ کو ایسے کہاں دیکھتی ہے

اسے اس سے کیا بجھ رہا ہوں دما دم دما دم پیاپے پیاپے و دما دم
اسے ایسی باتوں سے رغبت نہیں ہے

اسے تو غرض اس سے ہے تھک چکی ہے گھریلو شب و روز کی الجھنوں سے
یہ اس کا تقاضا ہے لے جاؤں اس کو کہیں دور بادل سے پربت سے بھی دور

جہاں ہوں سنہری لبادوں کی کرنیں وہ زر کار کرنیں کہ جو گنگنائیں
جہاں ہوں زمرد کے پردوں پہ خوں رنگ پھولوں کے نغمے کہ جو مسکرائیں

جہاں نیلمی سرد غرفے ہوں غرفے
ذرا کھول دوں اپنے غرفے کی باہیں

شفق کی دلہن جا چکی ہے ہر اک سمت ہیں آسماں پرستاروں کے آنسو
ادھر آ ادھر آ مری زرد رو میری بے حس دلہن میری آغوش میں آ

کہ میں ڈر رہا تھا
مجھے دیکھتی تھی شفق کی دلہن تیرے ہوتے ہوئے بھی مجھے دیکھتی تھی

مجھے گھورتی تھی