ادھر کئی دنوں سے
دور دور تک بھی نیند کا پتہ نہیں
کسیلے کڑوے ذائقے
ٹپک رہے ہیں آنکھ سے
کئی پہر گزر چکے
طویل کالی رات کے
میں سن رہا ہوں دیر سے
ہزاروں بار کی سنی سنائی دستکیں
کبھی شناسا آہٹیں
کبھی نشیلی سرسراہٹیں
کواڑ کھولتے ہی
دستکیں!
وہ آہٹیں نشیلی سرسراہٹیں
خراج روٹھی نیند کا لیے ہوئے چلی گئیں!
نظم
شناسا آہٹیں
آشفتہ چنگیزی