شناخت اس کے نام سے تھی
جسم کی بہار سے
شناخت آفتاب سے تھی
زلف آبشار سے
شناخت پیرہن سے تھی
غزال نور بار سے
شناخت اس کے شبنمی
فشار آتشیں سے تھی
زمین دوز آسماں صفت خمار سے
کھلی ہوئی تھی دور دور تک
تبسموں کی سرخ دھوپ
تیز روشنی
تمام شفقتوں کی نرم چاندنی
ملائک و نجوم
آج سارے بے مراد ہو گئے
شناختیں اجڑ گئیں
سلگتے بام و در کے درمیاں
شمار ہو رہے ہیں سوختہ بریدہ جسم
ریزہ ریزہ کچھ مکاں
وہ بے شناخت ہو گئی
وہ خواب تھی
وہ اک حسین نام تھی
وہ نام سے بچھڑ گئی
نظم
شناخت
بلراج کومل