شہتوت کی شاخ پہ بیٹھا کوئی
بنتا ہے ریشم کے تاگے
لمحہ لمحہ خول رہا ہے
پتہ پتہ بین رہا ہے
ایک ایک سانس بجا کر سنتا ہے سودائی
ایک ایک سانس کو خول کے اپنے تن پر لپٹاتا جاتا ہے
اپنی ہی سانسوں کا قیدی
ریشم کا یہ شاعر اک دن
اپنے ہی تاگوں میں گھٹ کر مر جائے گا!
نظم
شہتوت کی شاخ پہ
گلزار