EN हिंदी
شہر کے ایک کشادہ گھر میں | شیح شیری
shahr ke ek kushada ghar mein

نظم

شہر کے ایک کشادہ گھر میں

زہرا نگاہ

;

شہر کے ایک کشادہ گھر میں
اپنے اپنے کام سنبھالے

میں اور ایک مری تنہائی
ہم دونوں مل کر رہتے ہیں

باتیں کرتے روتے ہنستے
ہر دکھ سکھ سہتے رہتے ہیں

آج کہ جب سورج بھی نہیں تھا
پھولوں کے کھلنے کا یہ موسم بھی نہیں تھا

اور فلک پر چاند کے چھا جانے کا ہفتہ بیت چکا تھا
دروازے کی گھنٹی نے وہ شور مچایا

جس سے پورا گھر تھرایا
ہم دونوں حیران ہوئے کہ ایسا راہی کون رکا ہے

جو اس گھر کو اپنا گھر ہی سمجھ رہا ہے
کھڑکی سے باہر جھانکا تو بس اک خواب سا منظر دیکھا

سورج بھی دہلیز پہ تھا
اور چاند کواڑ کی اوٹ سے لپٹا جھانک رہا تھا

پھول کھلے تھے
ہم نے اس مہمان کو سر آنکھوں پہ بٹھایا

دل میں جگہ دی
جو اپنے ہمراہ سبھی موسم لے آیا

تھکی ہوئی تنہائی نے مجھ سے
تھوڑی دیر کو مہلت مانگی

میں نے اس کو چھٹی دے دی
ساتھ میں یہ تاکید بھی کر دی

دیکھو کل تم اپنے کام پہ جلدی آنا
بھول نہ جانا

یہ راہی جو سارے موسم لے آتے ہیں
ان کے رستے ساری دنیا میں جاتے ہیں

جس آنگن میں چلنا سیکھیں
اس آنگن میں رک نہیں پاتے

رک جائیں تو تھک جاتے ہیں