جیسے کوئی سیاح سفر سے لوٹے
جب شام کو تم لوٹ کے گھر آؤ گے
ہر نقش محبت سے تمہیں دیکھے گا
ہر یاد کو تکتا ہوا تم پاؤ گے
تم بیٹھو گے افکار کی خاموشی میں
سوچو گے کہ اس رنج سے کیا ہاتھ آیا
تم ڈھونڈنے نکلے تھے مگر کیا پایا
جم جائیں گی شعلوں پہ تمہاری آنکھیں
ہر شعلے میں اک خواب نظر آئے گا
دیواروں پہ پرچھائیاں لہرائیں گی
ہر راستہ آوازوں سے بھر جائے گا
اک شہر ہے آباد تمہارے دل میں
اک شہر جو گمنام ہے نا پیدا ہے
اک شہر جو مانند شجر تنہا ہے
نظم
شہر گمنام
منیب الرحمن