مجھے شہر جاں میں کہاں تم ملو گے
یہاں تو زمستاں کی یخ بستگی ہے
دروں اور دریچوں
گھروں کی فصیلوں پر کائی جمی ہے
ہوا اپنے ہاتھوں میں خنجر اٹھائے
گلی میں کھڑی دستکیں دے رہی ہے
میں سہما ہوا یہ صدا سن رہا ہوں
مری ہڈیوں کے نہاں معبدوں میں
کہیں آگ کا اک شرارہ نہیں ہے
چراغوں کی ساری لویں بجھ گئی ہیں
اندھیرے کا کوئی کنارہ نہیں ہے
مگر ہم ملیں گے
ہواؤں میں جب تازہ رت کے شگوفے کھلیں گے
پرندوں کی چہکار
پتوں کے جھرمٹ سے باہر نکل کر
نئے موسموں کا سواگت کرے گی
تو ہم تم ملیں گے
مگر شہر جاں کی فصیلوں سے باہر ملیں گے
نظم
شہر جاں کی فصیلوں سے باہر
غلام جیلانی اصغر