شہر تو اپنے گندے پاؤں پسارے دریا کے کنارے لیٹا ہے
اور تیرے سینے پر رینگتی ہوئی چیونٹیاں سورج کو گھور رہی ہیں
جب نصف درجن غیر ملکی حکیموں نے مشترکہ طور پر اعلان کیا
مرض سنگین ہے اور یہ بہت جلد ہی مر جائے گا
تو کسی چیچک زدہ بچے کی طرح تو نے انہیں دیکھا اور خاموش ہو رہا
غلیظ بدکار بے رحم
شہر لوگ کہتے ہیں تو بدکار ہے
اور میں نے خود دیکھا ہے
سر شام
تیرے رنگے چہرے والی عورتیں لڑکھڑاتے نوجوانوں کو نگل جاتی ہیں
بے رحم
جب رات گئے تیرے دانشور رکشا کیے خودکشی کرنے جاتے ہیں
تو خاموش رہتا ہے
شہر میں تیری دیوانہ کن خواہشوں سے بے زار ہوں
شہر تو اپنے گندے لباس کب اتارے گا
شہر لوگ کہتے ہیں مرنے کے بعد میری ہڈی سے بٹن بنائیں گے
شہر تیری دیواروں پر یہ کیسی تحریریں ہیں
شہر میں نے مہینوں سے اخبار نہیں پڑھا
شہر تو چائے میں شکر ڈالنا بھول گیا ہے
اور یہ تیرے آنسوؤں کی طرح لگ رہی ہے
شہر مجھے نیند آ رہی ہے تھپک کر سلا دے
نظم
شہر
عین رشید