آسماں کی گود میں دم توڑتا ہے طفل ابر
جم رہا ہے ابر کے ہونٹوں پہ خوں آلود کف
بجھتے بجھتے بجھ گئی ہے عرش کے حجروں میں آگ
دھیرے دھیرے بچھ رہی ہے ماتمی تاروں کی صف
اے صبا شاید ترے ہمراہ یہ خوں ناک شام
سر جھکائے جا رہی ہے شہر یاراں کی طرف
شہر یاراں جس میں اس دم ڈھونڈھتی پھرتی ہے موت
شیر دل بانکوں میں اپنے تیر و نشتر کے ہدف
اک طرف بجتی ہیں جوش زیست کی شہنائیاں
اک طرف چنگھاڑتے ہیں اہرمن کے طبل و دف
جا کے کہنا اے صبا بعد از سلام دوستی
آج شب جس دم گزر ہو شہر یاراں کی طرف
دشت شب میں اس گھڑی چپ چاپ ہے شاید رواں
ساقی صبح طرب نغمہ بہ لب ساغر بکف
وہ پہنچ جائے تو ہوگی پھر سے برپا انجمن
اور ترتیب مقام و منصب و جاہ و شرف
نظم
شہر یاراں
فیض احمد فیض