تمہیں جب دیکھتا ہوں
تو مری آنکھوں پہ رنگوں کی پھواریں پڑنے لگتی ہیں
تمہیں سنتا ہوں
تو مجھ کو قدیمی مندروں سے گھنٹیوں اور مسجدوں سے ورد کی آواز آتی ہے
تمہارا نام لیتا ہوں
تو صدیوں قبل کے لاکھوں صحیفوں کے مقدس لفظ میرا ساتھ دیتے ہیں
تمہیں چھو لوں
تو دنیا بھر کے ریشم کا ملائم پن مری پوروں کو آ کر گدگداتا ہے
تمہیں گر چوم لوں
تو میرے ہونٹوں پر الوہی آسمانی نا چشیدہ ذائقے یوں پھیل جاتے ہیں
کہ اس کے بعد مجھ کو شہد بھی پھیکا سا لگتا ہے
تمہیں جب یاد کرتا ہوں
تو ہر ہر یاد کے صدقے میں اشکوں کے پرندے چوم کر آزاد کرتا ہوں
تمہیں ہنستی ہوئی سن لوں
تو ساتوں سر سماعت میں سما کر رقص کرتے ہیں
کبھی تم روٹھتی ہو
تو مری سانسیں اٹکنے اور دھڑکن تھمنے لگتی ہے
تمہارے اور اپنے عشق کی ہر کیفیت سے آشنا ہوں میں
مگر جاناں
تمہیں بالکل بھلا دینے کی جانے کیفیت کیا ہے
مجھے محسوس ہوتا ہے
کہ مرگ ذات کے احساس سے بھر جاؤں گا فوراً
تمہیں میں بھولنا چاہوں گا تو مر جاؤں گا فوراً
نظم
شہر بانو کے لیے ایک نظم
رحمان فارس