آخرش آ گئی وہ شب اے دل
صبح سے انتظار جس کا ہے
میری تنہائی کی رفیق یہ شب
کون کہتا ہے کہ تاریک ہے شب
میرے ہر درد سے پیوند بنے
آرزوؤں کی اک ردا ایسی
جس کی زنبیل میں میں نے اپنے
دل جگر ذہن بچھا رکھے ہوں
اپنے معشوق کے اس آنچل میں
کتنے ارمان چھپا رکھے ہیں
کتنے احساس سجا رکھے ہیں
میرے اندر کا کرب اٹھائے یہ شب
کہکشاں بن کے جگمگاتی ہے
روح براق بن سی جاتی ہے
جس پہ بیٹھا میں اپنی دنیا کے
آسمانوں کی سیر کرتا ہوں
رات سے صبح کو اترتا ہوں
صبح ہوتی ہے رات آنے کو
رات کو انتظار رہتا ہے
میری تنہائی کی رفیق یہ شب
میری جاناں عمیق یہ شب
ریشمی اسودی عتیق یہ شب
کون کہتا ہے کہ تاریک ہے شب
شب ترا انتظار رہتا ہے

نظم
شب کا سفر
رضی رضی الدین