رات ہے بردہ فروش
اس کے بہکائے ہوئے ہوش میں کب آئے ہیں
اپنے آنچل کے ستارے بھی جو نیلام کرے
اس کی بانہوں میں جو بہکا ہے
وہ سنبھلا ہی نہیں
اس کی باتوں میں جو آیا
وہ کبھی سویا نہیں
جس کے پیکر کو ہوا نے بھی کبھی مس نہ کیا
رات پرکار
فسوں زار
اور آشفتہ مزاج
جس کی آنکھوں کو کسی خواب نے بوسہ نہ دیا
ایسی دل کش کہ مثال اس کی محال
جس سے ہم خواب ہو بے خوابی مقدر اس کا
جس کے ہم راہ چلے خود کو بھلا دیتا ہے
اس کے بہکائے ہوئے
حافظؔ و رومیؔ و تبریزؔ ہوئے
نظم
شب گردوں کے لیے اک نظم
فہیم شناس کاظمی