EN हिंदी
شب تنہائی | شیح شیری
shab-e-tanhai

نظم

شب تنہائی

شائستہ مفتی

;

سانس روکے ہوئے اس شہر سے گزری ہوا
کچھ تو کہتی ہے فضا رات کی دیوانوں سے

خاک سڑکوں پہ بہت شور ہے سناٹے کا
گیت لکھے ہیں خموشی کی مدھر تانوں سے

میرے احباب مجھے کہتے ہیں اے جان عزیز
تو یہاں تنہا اندھیروں سے الجھتا کیا ہے

شہر میں صف سی بچھی ہے بجھے انگاروں پر
تو فقط راکھ کے انبار کو تکتا کیا ہے

آؤ ہم مل کے منائیں شب خاموشی کو
بجھ گیا دل تو ہوا کیا ابھی بینائی ہے

خالی نظروں سے تکیں ٹوٹے ہوئے تاروں کو
اپنے خوابوں پہ پشیماں شب تنہائی ہے

سانس روکے ہوئے اس شہر سے گزری ہے ہوا