ہوا بے مہر تھی اس رات ٹھنڈی اور کٹیلی
سانس لینا سر سے اونچی لہر سے ٹکر لگانا تھا
صدا کوئی نہیں تھی
سمت کی تعین مشکل تھی
نشیبی بستیوں میں راستے اک دوسرے میں ختم ہوتے تھے
تجھے کیا علم ہے وہ رات سرتاپا شب ہجراں ہمارے حق میں کیسی تھی
لکیریں ہاتھ کی نا مہرباں
ماتھا معیشت کی طرح تنگ اور گھر برکت سے چہرہ نور سے عاری
گناہوں کا کیا مقدور تھا اچھا عمل بھی ہو نہیں پایا
کسی بڑھیا کی کٹیا میں دیا جھاڑو
نہ روئے با وضو ہو کر
نہ کچھ ترتیل نہ تحلیل
ہونٹوں سے دعا ہی پھوٹتی لیکن ہماری تیرہ روزی رات کے ہر برج پر
بیدار اور چوکس تھی
گاہے گاہے اک للکار آتی تھی ازل کی لوح سے
اور ہم منوں مٹی کے نیچے سہم جاتے تھے
ہوا بے مہر تھی اس رات ٹھنڈی کٹیلی
سانس لینا سر سے اونچی لہر سے ٹکر لگانا تھا
نظم
شب ہجراں
محمد اظہار الحق