تجھے یاد ہے سبھی جاں بہ لب ترے راستوں میں کھڑے رہے
کہ دم وداع تجھے دیکھ لیں
کہیں جھولیاں تھیں کھلی ہوئی
کہیں چشم چشم عجیب رنگوں کا رقص تھا
کوئی خواب تھا کوئی عکس تھا
تجھے یاد ہے تو بتا مجھے
پس شام شہر ہوائے دہر کو کیا ہوا
شب ہجر کوئی کہاں گیا
میں اٹھا جو بستر خواب سے
تو کوئی نہ تھا مرے چار سو
جو بتا سکے
جو گواہ ہو
سر بام کس کی نظر بجھی
پس شام کس کا لہو جلا
نظم
شب ہجر کوئی کہاں گیا
ممتاز کنول