EN हिंदी
شب چراغ | شیح شیری
shab charagh

نظم

شب چراغ

محمود ایاز

;

بسوں کا شور دھواں گرد دھوپ کی شدت
بلند و بالا عمارات سرنگوں انساں

تلاش رزق میں نکلا ہوا یہ جم غفیر
لپکتی بھاگتی مخلوق کا یہ سیل رواں

ہر اک کے سینے میں یادوں کی منہدم قبریں
ہر ایک اپنی ہی آواز پا سے رو گرداں

یہ وہ ہجوم ہے جس میں کوئی فلک پہ نہیں
اور اس ہجوم سر راہ سے گزرتے ہوئے

نہ جانے کیسے تمہاری وفا کرم کا خیال
مرے جبیں کو کسی دست آشنا کی طرح

جو چھو گیا ہے تو اشکوں کے سوتے پھوٹ پڑے
سموم و ریگ کے صحرا میں اک نفس کے لیے

چلی ہے باد تمنا تو عمر بھر کی تھکن
سر مژہ سمٹ آئی ہے ایک آنسو میں

یہ وہ گہر ہے جو ٹوٹے تو خاک پا میں ملے
یہ وہ گہر ہے جو چمکے تو شب چراغ بنے