کتنی ضو پاش امیدوں کے سہارے چھوٹے
چاند اک مست شرابی کی طرح وارفتہ
کہر کی دھند میں چلتا رہا گرتا پڑتا
دشت تنہائی میں اٹھتے رہے خوش رنگ سراب
رنگ کی لہروں پہ کھلتے رہے نسرین و گلاب
سرو کے سائے میں الجھے ہوئے انفاس کے راگ
ماضی و حال کے سنگم پہ چلاتے رہے آگ
پہلے اک آگ لگی آگ پھر اک یاد بنی
یاد اشکوں میں نہا کر ترے پیکر میں ڈھلی
مرمریں پیکر انداز بخواب آلودہ
جیسے خیام کی تخئیل شراب آلودہ
یک بیک عرش سے پھر کوئی ستارہ ٹوٹا
دل لرز اٹھا کہ اک اور سہارا ٹوٹا
تیری زلفوں کی طرح ڈھل کے کمر تک پہنچی
رات بل کھاتی ہوئی بام سحر تک پہنچی
نظم
شام سے تا بہ سحر کتنے ستارے ٹوٹے
احسن احمد اشک