مت پوچھ یہ مجھ سے دوست مرے
کیوں شام ڈھلے ان آنکھوں میں
بے نام سی ایک اداسی کی
گھنگھور گھٹائیں رہتی ہیں
کیوں بے خود ہو کر اس لمحے
ڈھلتا ہوا سورج تکتا ہوں
آنکھوں میں کسی کا عکس لیے
کیوں بدن کتابیں تکتا ہوں
مت پوچھ یہ وقت ہی ایسا ہے
مجھے دل پر زور نہیں رہتا
میں لاکھ چھپاتا ہوں لیکن
اشکوں کو روک نہیں سکتا
اک قرض چکانے کی خاطر
یہ کچھ لمحوں کی چوری ہے
بس یوں ہی سمجھ لے یار مرے
یہ شام مری کمزوری ہے

نظم
شام مری کمزوری ہے
شکیل جاذب