EN हिंदी
شام کے دن رات | شیح شیری
sham ke din raat

نظم

شام کے دن رات

وحید احمد

;

شام میں غار تھا
غار میں رات تھی

رات کے نم اندھیرے میں اک اجنبیت کا احساس تھا
چلتی سانسوں کی ہلتی ہوئی سطح پر

وقت کی ناؤ ٹھہری ہوئی تھی
سنسناتے ہوئے نم اندھیرے میں پوریں دھڑکنے لگیں

غار میں محو پرواز پلکوں کے پنچھی الجھنے لگے
غار میں شام تھی

چند لمحوں میں صدیاں بسر کر کے جب
غار کے دور سے ہم زمانے میں آئے

تو ڈھلتے ہوئے دن کی گیلی چمک پتھروں پر جمی تھی
مڑ کے دیکھا تو پلکوں کو پروا لگی

اور مخمور آنکھوں کو سپنا لگا
گونجتے غار کا نم اندھیرا ہمیں اپنا اپنا لگا

غار نے کچھ تو جانے دیا کچھ ہمیں رکھ لیا تھا
نہایت سبک سار تھے

ایسے چلتے تھے جیسے زمیں کے مکیں
کرۂ ماہ پر چل رہے ہوں

شام کے پیڑ پر اک پرندہ
گجرتان بھیروں میں گانے لگا

وقت کا سانولا پیڑ ہے
پیڑ کے ملگجے پات ہیں

دل کے اپنے زمان و مکاں
شام کے اپنے دن رات ہیں