آج پھر سنولا رہا ہے عارض روئے حیات
موت کے قانون پر ہے زندگی کا گرم ہاتھ
جھلملاتا جا رہا ہے تند آندھی میں چراغ
مل رہا ہے خون کے قطروں سے منزل کا سراغ
آ رہا ہے فاقہ کش مزدور کے چہرے پہ رنگ
کھردرے ہاتھوں سے اب ٹکرا رہے ہیں جام و سنگ
چھٹ رہی ہے نبض ہستی آ رہا ہے انقلاب
اٹھ رہا ہے آج فرسودہ عقائد کا سہاگ
زیست کی گردن میں ہے پژمردہ افسانوں کا ہار
موت کے شانوں پہ ہے سلمائے گیتی کا نکھار
بن رہی ہیں اب زمانہ میں نئی پگڈنڈیاں
جن سے گزرے گا جواں فکروں کا پہلا کارواں
داستان عہد پارینہ ہے ذوق رنگ و بو
اب چھلکتا ہے خم و ساغر سے انساں کا لہو
بزم حسن و ناز کی دلداریاں بھی سو گئیں
ہجر کی راتوں کی وہ بے خوبیاں بھی ہو گئیں
نظم
شاعر
اختر پیامی