کسے ہوئے اکتارے پر ہیں گیندے کے دو پھول
مہندی لگے ہاتھوں پر ہیرے موتی جڑے دو نقش
بانسری کے ہونٹوں سے نکلے آٹھویں سر کا گیت
شام املتاسوں کی سنائے تازہ تازہ نظم
آئینے میں گوری کے امراؤ جان سا روپ
آنکھوں میں بے تاب تمنا دھڑکن ہے بے ربط
دور سمے کے پار سے آنے والا ہے شہزادہ
گرد اڑاتی رتھ سے اترا آخر ایک جوان
اچکن پر ہے سجا ہوا سرخاب کا نیلا پر
پان سپاری چونا کتھا ریشم ریشم جسم
ڈھول کی تھاپ پہ رقصاں گھنگرو اور گوری کا دل
محل سرا کی دیواروں پر ہے پیاس کا میٹھا رنگ
جسم سے نکلا نکلا جائے گوری کا ہر انگ
شہزادے کی سانسوں میں صندل کے عرق کی باس
رتھ بانوں کی رگوں میں ان جانے لمحوں کا کیف
جسم اور جام کی رعنائی میں ہار کا درد فنا
شہزادے کے سینے پر ہیں رقاصہ کے اشک
ایرانی قالین پر رقصاں رقاصہ کا خون
دروازے کے باہر لٹکا جنگ میں ہار کا داغ
شہزادے کے ہونٹوں پر ہے فاتح کی مسکان
نظم
شاہی بدلہ
الیاس بابر اعوان