EN हिंदी
شاہ والا | شیح شیری
shah-e-wala

نظم

شاہ والا

منصور احمد

;

ہم تو یوں بھی باج گزار تھے صدیوں کے
ہم تو کتنی ہی نسلوں سے

آپ کی کتنی ہی نسلوں کو
حق نمک میں

اپنے ایمان اور انا کا
نذرانہ دیتے آئے تھے

ہم نے تو اپنے حصے میں
محل سرا کے پچھواڑے کی

دھول چنی تھی
اور راہوں میں اڑنے والے کچھ تنکے بھی

جن سے گھونسلے بن سکتے تھے
محل سرا کو ان تنکوں سے کیا خطرہ تھا

پھر کیوں آپ نے شاہ والا
چیلوں کوؤں اور گدھوں کو

چھوٹے چھوٹے گھونسلے نوچنے پر مامور کیا ہے
ایسا کیوں ہے شاہ والا

ہم صدیوں کے باج گزار تو
شہر پناہ سے باہر ہیں

لیکن چیلیں کوے اور گدھ
شہر پناہ کے اندر ہیں

شہر پناہ کی اس تقسیم میں
کس کا ہاتھ ہے شاہ والا