ہر اک دور میں ہر زمانے میں ہم
زہر پیتے رہے، گیت گاتے رہے
جان دیتے رہے زندگی کے لیے
ساعت وصل کی سر خوشی کے لیے
دین و دنیا کی دولت لٹاتے رہے
فقر و فاقہ کا توشہ سنبھالے ہوئے
جو بھی رستہ چنا اس پہ چلتے رہے
مال والے حقارت سے تکتے رہے
طعن کرتے رہے ہاتھ ملتے رہے
ہم نے ان پر کیا حرف حق سنگ زن
جن کی ہیبت سے دنیا لرزتی رہی
جن پہ آنسو بہانے کو کوئی نہ تھا
اپنی آنکھ ان کے غم میں برستی رہی
سب سے اوجھل ہوئے حکم حاکم پہ ہم
قید خانے سہے، تازیانے سہے
لوگ سنتے رہے ساز دل کی صدا
اپنے نغمے سلاخوں سے چھنتے رہے
خونچکاں دہر کا خونچکاں آئینہ
دکھ بھری خلق کا دکھ بھرا دل ہیں ہم
طبع شاعر ہے جنگاہ عدل و ستم
منصف خیر و شر حق و باطل ہیں ہم
نظم
شاعر لوگ
فیض احمد فیض