اگر اس گلشن ہستی میں ہونا ہی مقدر تھا
تو میں غنچوں کی مٹھی میں دل بلبل ہوا ہوتا
گناہوں میں ضرر ہوتا، دعاؤں میں اثر ہوتا
محبت کی نظر ہوتا، حسینوں کی ادا ہوتا
فروغ چہرۂ محنت، غبار دامن دولت
نم پیشانیٔ غیرت، خم زلف رسا ہوتا
ہوا ہوتا کسی دستار کج پر پھول کی طرح
اور اس دستار کج کی تمکنت پر ہنس رہا ہوتا
کسی مغرور کی گردن پہ ہوتا بوجھ احساں کا
کسی ظالم کے دل میں درد ہو کر لا دوا ہوتا
کسی منعم کے چہرہ پر خوشی حاجت روائی کی
کسی نادار کی نظروں میں شرم التجا ہوتا
کسی بھٹکے ہوئے راہی کو دیتا دعوت منزل
بیاباں کی اندھیری شب میں جوگی کا دیا ہوتا
کسی کے کلبۂ احزاں میں شمع مضمحل بن کر
کسی بیمار مفلس کے سرہانے رو رہا ہوتا
شرر بن کر کسی نادار گھر کے سرد چولھے میں
''بصد امید فردا'' زیر خاکستر دبا ہوتا
یتیم بے نوا کی رہگزر پر اشرفی بن کر
لئیم فاقہ کش کی جیب ممسک سے گرا ہوتا
نیستاں سے نکل کر حسرت آباد تمدن میں
گدائے پیر و نا بینا کے ہاتھوں کا عصا ہوتا
شکستہ جھونپڑے میں بانسریٔ دہقاں کی سر بن کر
سکوت نیم شب میں راز ہستی کہہ رہا ہوتا
غرض اس حسرت و اندوہ و یاس و غم کی بستی میں
کہیں دور آفریں ہوتا، کہیں درد آشنا ہوتا
''ڈبویا مجھ کو ہونے نے'' بقول غالب دانا
''نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا''
نظم
شاعر کی تمنا
جمیلؔ مظہری