میرے پوتے نے آکسیجن کا بستہ
اپنی پیٹھ پر باندھ کر
اجازت مانگی
خلا کے سفر کے لیے
میرے بیٹے نے جو روشنی کو گن
رہا تھا میز پر
اپنی نگاہوں کے دو سوالیہ
شانوں کو
اچھال دیا میری طرف
میں نے دوا کی گولیوں کے رکھتے ہوئے
ایک مریضہ کے نحیف ہاتھ میں
اپنی جھریوں کے بھنور سے
پھینک دیا دو نگاہوں کا سوال
پشت کی دیوار پر
جہاں ایک شاعری کی تصویر ہے
ٹنگی ہوئی
وہ میرے بابا ہیں
کہ خواب کی دنیا بسانے والے
شاعر کے
خوابوں کی یہ تیسری تعبیر تھی
ایک پل خامشی رہی
ایک پل کے بعد
ہونٹوں کے چند پھول کھلے
جبیں پر اک چاند اگا اور
پھر غروب ہو گیا
اور
دور خلاؤں میں اوپر کو تیرتی ہوئی
مشین کی آواز
مدھم ہوتی چلی گئی
نظم
شاعر کا خواب
پرویز شہریار