EN हिंदी
اسکیپ اِزم | شیح شیری
scape-ism

نظم

اسکیپ اِزم

الیاس بابر اعوان

;

چل کہ صد چاک گریباں وہاں ہو آتے ہیں
یہ جو ہنگامۂ ہستی ہے ذرا دیر کو چھوڑ

ایک بے انت مسافت کے ادھر بیٹھتے ہیں
یاد کرتے ہیں پری خانوں کی تلخابی کو

اپنی آزردہ تمناؤں پہ رو لیتے ہیں
گرد میں رکھے ہوئے اشک فسردہ چہرے

گئے وقتوں کا تذبذب نئے وقتوں کا عذاب
آ کہ شانوں سے گرا آتے ہیں اس پار کہیں

اس سے پہلے کہ یہاں سیل فنا آ نکلے
نام لیتا ہوا دونوں کا اسی شور کے بیچ

وقت کے پار جہاں زاد کی دہلیز کے ساتھ
اشک روتے ہیں مسافت کا بھرم رکھتے ہیں

چل کہ صد چاک گریباں وہاں ہو آتے ہیں