EN हिंदी
سوانح عمری | شیح شیری
sawaneh-umri

نظم

سوانح عمری

مصحف اقبال توصیفی

;

میں نے اپنی عمر کا سرکش گھوڑا
یادوں کے اک پیڑ سے باندھا

میرا لنگڑاتا بڑھاپا
ستر اس کے سائے سائے پچپن

میرا گھر میرا دفتر
میری جوانی میرا بچپن

تئیس بائیس ان کے پیچھے تیرہ بارہ
میرے گاؤں کا چوبارا۔۔۔

مجھ کو تو یہ سارا منظر
پل پل اپنا روپ بدلتا منظر

دھندلا دھندلا سا لگتا ہے
میری میز پہ معنی کا اک بت تھا

میں نے اس کی پتھر آنکھوں پتھر ہونٹوں پر
تھوڑا سا لفظوں کا پانی تھوڑی سی وہسکی چھڑکی

اب دیکھوں تو میرا آئینہ دھلا دھلا سا
اب سارا منظر اچھا لگتا ہے!!