گزر رہے ہیں برابر تباہیوں کے جلوس
یہ زندگی کے مسافر کہاں چلے جائیں
یہ اشتہار غموں کے الم کی تصویریں
یہ زندگی ہے نہیں گرد زندگی بھی نہیں
جواں امیدیں فضائے حیات سے مایوس
تنور سینہ کا ایندھن ہیں وہ تمنائیں
جلی حروف میں یہ حادثوں کی تحریریں
کہ جن سے دل کے اندھیرے میں کچھ کمی بھی نہیں
یہ آدمی ہیں نہیں بے بسی کی تقریریں
بپا ہے حشر مگر آنکھ دیکھتی بھی نہیں
گزر رہے تھے وہ ہستی کے مجرمان ازل
قدم بڑھائے ہوئے میں کہاں چلا آیا
جنہیں بہشت کی راحت بھی سازگار نہ تھی
سلگتی پانی میں سورج کی لاش وہ ڈوبی
وہ زندگی کے مسافر وہ ہمرہان اجل
فضا میں پھیل گیا تیرگی کا سرمایہ
گزر گئے کہ انہیں موت ناگوار نہ تھی
فلک پہ جاگی ستاروں کی شان محبوبی
وہ رہ گزار مرے دل کی رہ گزار نہ تھی
ابل پڑے مری آنکھوں سے غم کے آنسو بھی
سکوت شب ہے کمال سکون ہے پیدا
یہ چاہتا ہوں یونہی بے سبب چلا جاؤں
سکون شب سے یہ دل میں خیال آتا ہے
وہ زندگی ہے کہاں جس کو ساتھ لے جاؤں
وہ زندگی ہے کہاں جس کو ساتھ لے جاؤں
نظم
سوالی
یوسف ظفر