EN हिंदी
سوال | شیح شیری
sawal

نظم

سوال

عنبرین حسیب عنبر

;

ہم اپنے خواب خوش فہمی سے اٹھے
بہت شاداں و فرحاں

چلے دنیا کی جانب مول کرنے کو
ہماری جیب میں مہر و وفا اخلاص اور سچائی ہے

لیکن
یہاں بازار میں سب لوگ کہتے ہیں

بدل کر رہ گئی ہے اب کرنسی اس زمانہ کی
تمہارے پاس تو جو کچھ بھی ہے

بے کار ردی ہے
کہ اب وقعت نہیں ہے کوئی جس کی

یہاں تو اب فقط
مکر و فریب اور جھوٹ کا سکہ چلے گا

اگر یہ پاس ہے
تو ساری دنیا ہے تمہاری

ہماری سادگی پر
اک زمانہ ہنس رہا ہے

جسے دیکھو تعجب سے یہی وہ پوچھتا ہے
کہاں تم اب تلک سوئے ہوئے تھے

کہ دنیا اس قدر تبدیل ہونے کی خبر تم تک نہیں پہنچی
نہیں معلوم یہ کیا ماجرا ہے

وگرنہ ہم تو سنتے آئے تھے اب تک
کہ جو اک عرصہ محو خواب رہتے ہیں

کسی بہتر زمانہ میں اٹھا کرتے ہیں
لیکن

ہمارے ساتھ یہ کیا ہو گیا ہے