یہ سمندر
موج در موج سلاسل
ہلکے گہرے سبز نیلے رنگ
جن پر جا بہ جا چاندی کے دھبے
اس کنارے پر گلابی رنگ میں ڈوبا ہوا اک گول چہرہ
پھیلتے پانی میں اپنے آتشیں ہونٹوں کی سرخی گھولتا جائے
میں اک سونے کی کشتی میں سوار
ان حسیں رنگوں میں مدہوش
اس کنارے کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہوں
دور سطح آب پر وہ ایک بگلوں کی قطار
یہ سمندر کے رشی گیانی
جو پانی کے ہر اک سر تال سے آگاہ ہیں
اب تک یہ بے فکری سے موجوں پر سوار
تیرتے جاتے تھے
کیوں پھر دفعتاً
ٹولی بنا کر اڑ گئے
میں نظر کے تار پر رقصاں
وہ نغموں کے سروں میں گم
نظم
سروش
اعجاز فاروقی