EN हिंदी
سرحد | شیح شیری
sarhad

نظم

سرحد

ندیم گلانی

;

کیا خوب ہو گر اس دنیا سے
سرحد کا نام ختم ہو جائے

سارے دیس۔۔۔۔ سب کے دیس ہوں
روح کو جسم

اور جسم کو روح سے ملنے کے لئے
کسی ویزے کی ضرورت نہ ہو

جو چاہے، جب چاہے، جہاں چاہے
جس سے ملے۔۔۔۔

جو چاہے، جب چاہے، جہاں چاہے
چلا جائے۔۔۔۔

کوئی پابندی نہ ہو۔۔۔۔
کاغذ پہ لگائی ہوئی لکیروں سے

دنیا کے اس نقشے پر
نفرت بانٹنے والوں کے

خواب ادھورے رہ جائیں۔۔۔۔
کیا خوب ہو گر اس دنیا سے

سرحد کا نام ختم ہو جائے