EN हिंदी
سرد، تاریک رات | شیح شیری
sard, tarik raat

نظم

سرد، تاریک رات

بلراج کومل

;

اس قدر تیرہ و سرد ہرگز نہ تھا دل کا موسم کبھی
ایک پل میں خدا جانے کیا ہو گیا

چاند کی وادیوں میں اتر آئی شب!
میں وہ تنہا سبک پا مسافر تھا تکمیل کی جستجو

کھینچ لائی تھی اک روز جس کو یہاں
آرزو تھی مجھے میں زمیں کے لیے

میری طرار پرکار چشم نہاں
فاصلوں سرحدوں

وقت کے سب حصاروں کے اس پار کی
شہر امروز میں

ان گنت خوب صورت تصاویر آویزاں کر دے گی جب
دور کی ہر پر اسرار سرشار آواز میرے لہو میں اتر جائے گی

میرے دامن کو پھولوں سے بھر جائے گی
سرد سے سرد تر

ہر گھڑی ہو رہی ہے رگ و پے میں بہتے عناصر کی رو
شب گزر جائے گی

چاند کی منجمد وادیوں میں سلگتی ہوئی روشنی
صبح دم ایک پل میں امنڈ آئے گی

مجھ کو ڈر ہے مگر
ساعت نو کے ہنگام سے پیشتر

تیرہ سرد شب کا بھیانک عمل
دل کے آفاق پر

ہو نہ جائے کہیں موت تک حکمراں
ختم ہو جائے تکمیل کی داستاں!!