دشت امکان میں جاری ہے
سرابوں کا سفر
ایک صحرائے جنوں
حد نظر ہے حائل
شاخ زیتون پہ
آواز کا پنچھی گھائل
دور پازیب کی چھم چھم ہے
چمکتی شے ہے
رہگزر کوئی نہیں
دھند کے منظر کے سوا
اک تری یادوں کے سوا
ہر طرف ریت کے اٹھے ہیں بگولے
حاتم
نقش پا کوئی نہیں
خون کے قطروں کے سو
اک صدی بیت گئی
ایک زمانہ گزرا
اب یقیں کیسے ہو
ہونٹ تشنہ ہیں مرے
خشک گلہ ہے اب بھی
ہر طرف کرب و بلا ہے اب بھی
دشت امکان میں جاری ہے
سرابوں کا سفر
نظم
سرابوں کا سفر
شمیم قاسمی