لمحہ بھر کے لیے چلتے چلتے قدم رک گئے
خون کے تازہ تازہ نشاں چھوڑ کر
کھانستی زندگی دونوں ہاتوں سے سینے کو تھامے ہوئے
جانے کس موڑ پر جا کے گم ہو گئی
راستے کی سیاہی سے لپٹا رہا
اک اثاثہ جسے اپنے وارث کی کوئی ضرورت نہ تھی
ایک ٹوٹا ہوا آئنہ
جس میں آئینہ گر کی بھی صورت نہ تھی
میری آنکھوں نے اس خون تازہ کا نوحہ پڑھا
میری سانسوں کا ڈورا الجھنے لگا
اور پھر میرا انسان کچھ دیر میں
اپنے ہی جیسے انسان کے خون سے ڈر گیا
ایک نادیدہ مخلوق کے خوف سے مر گیا
نظم
سر راہ
سحر انصاری