رات اک خواب نے آنکھیں مرے اندر کھولیں
اور بستر کی شکن کھینچ کے سیدھی کر دی
پھر سرہانے سے اکٹھے کئے گزرے لمحے
ایک تصویر بنا کر سر مژگاں رکھ دی
آنکھ کھولوں گی تو یہ بوجھ گرے گا ایسے
آنکھ کا گنبد سیماب پگھل جائے گا
میرے سب خوابوں خیالوں کو نگل جائے گا
اور اگر آنکھ نہ کھولی تو یہ گریہ کرتے
سر پٹکتے ہوئے لمحے کسی دیمک کی طرح
آنکھ کے بند غلافوں سے چپک جائیں گے
اس عمارت کا ہر اک نقش مٹا ڈالیں گے
اب جو کرتے ہیں یہ بستر کا طواف آہستہ
میرے ہونے کے بہانے سے ذرا پہلے ہی
اس دریچے میں ابھر آئے سحر کی آہٹ
ساتویں پھیرے کے آنے سے ذرا پہلے ہی
نظم
سر مژگاں
عنبرین صلاح الدین