میری گردن میرے شانے میرے لب
سب کے سب ویران ہیں
اپنے گھر میں ایک میں ہوں
اور کالی رات کا پر ہول سناٹا
کسی کے پاؤں کی آہٹ نہیں
چوڑیوں اور برتنوں کی کھنکھناہٹ بھی نہیں
سوئی دھاگے ایک دوجے سے بھرے بیٹھے ہوئے ہیں
دھول میں لپٹی کتابیں
میز پر بکھری پڑی ہیں
اور چولھا
لکڑیوں کی یاد میں گم سم
ایک کونے میں پڑا ہے
اور اک انجانا سایہ
گھر کی چوکھٹ پر کھڑا ہے
اک حسیں تصویر جو دیوار پر لٹکی ہوئی ہے
دیکھ کر مجھ کو ملول
چپکے چپکے رو رہی ہے
اور کالی رات کا پر ہول سناٹا
کھلکھلا کر ہنس رہا ہے
نظم
سناٹا
اختر راہی