یہ سمندر کی مہربانی تھی
تم نے ساحل کو چھو کے دیکھ لیا
اب ہوا تم سے کچھ نہیں کہتی
موج در موج لوٹتے ہو تم
دھوپ میں اختلاط کرتے ہو
اور ہوا تم سے کچھ نہیں کہتی
کوئی بھی تم سے کچھ نہیں کہتا
سب سمندر کی مہربانی ہے
جاؤ بارش کا اہتمام کرو
ابر آوارہ سے پتنگ بناؤ
اب تمہارے ہیں خیمہ و خرگاہ
دور دو بادباں چمکتے ہیں
کشتیوں میں دیے جلے ہوں گے
کوئی ساحل پہ آئے گا اس بار
تم نے سوتے میں پھر سوال کیا
کون ساحل پہ آئے گا اس بار
آؤ دریا نشین ہو جائیں
ہم نے ساحل کو چھو کے دیکھ لیا
نظم
سمندر کی مہربانی
محمد انور خالد