EN हिंदी
سمندر کی خوشبو | شیح شیری
samundar ki KHushbu

نظم

سمندر کی خوشبو

عذرا عباس

;

سمندر کی خوشبو میرے پیٹ
میں گھل رہی ہے

وہ ذرا فاصلے پر ہی بچھا ہے
اور خاموشی سے آسمان کو خود کو

تکتے ہوئے دیکھ رہا ہے
میں ایک کمرے میں

سرخ قالین پر یوگا آسن کرتے ہوئے
آنکھیں موندے

اپنے دل کی آواز سن رہی ہوں
جو آج سکون سے ہے

جیسے کوئی بہت تھک کر سویا ہو
وسوسوں کے درمیان سے نکل کر

میں اپنے دل کی اس آسودگی پر
خوش ہوں

جیسے کوئی ماں اپنے بیمار بچے کو
آرام سے سوتے دیکھ کر

چین کا سانس لیتی ہے
میرے پیٹ میں سمندر کی خوشبو

ایک وقت کی غذا کی طرح مجھے زندہ کر رہی ہے
اس وقت سے پہلے

جب ایک بار پھر مرا دل سوتے سے
جاگے

اپنے وسوسوں سے کھیلنے کے لیے