کبھی نیلگوں آسماں کے تلے
سبز ساحل پہ ملنے کا وعدہ ہوا تھا
سمندر کسی خواب سا خوش نما تھا
سمندر کے پہلو میں
شہر دل افروز کا ہمہمہ تھا
یہ شہر آج اشکوں میں ڈوبا ہوا ہے
یہاں سے وہاں تک
ہر اک رہ گزر پر
اک آسیب کا سامنا ہے
نگاہوں کے آگے دھواں ہے
سمندر کہاں ہے
سمندر کے ساحل پہ ملنے کا وعدہ ہوا تھا
کوئی آج بھی اس بلاوے کی امید میں
خود سے روٹھا ہوا ہے
کوئی بے قراری کے ساحل پہ
آنکھیں بچھائے کھڑا ہے
کوئی رنج اوڑھے ہوئے سو رہا ہے
کوئی خوف تانے ہوئے جاگتا ہے
کوئی بے کراں پیاس میں ڈوبتا ہے
کوئی آس کے پانیوں کو
عبث جھاگتا ہے
عجب اس زمیں کی فضا ہے
عجب آج رنگ فلک ہے
سمندر کی جانب سے آتی ہوا میں
لہو کی مہک ہے

نظم
سمندر کی جانب سے آتی ہوا میں
ثمینہ راجہ