EN हिंदी
سمندر | شیح شیری
samundar

نظم

سمندر

جمیل ملک

;

مرا دل اچھلتا سمندر
مرا جذبۂ بے اماں

میرا ایک ایک ارماں
اچھلتے سمندر کی صدیوں پرانی چٹانوں سے ٹکرا کے یوں ریزہ ریزہ ہوا ہے

کہ گھائل سمندر کے سینے میں محشر بپا ہے
ہر اک موج درد آشنا ہے

ہر اک قطرۂ آب انمول ہے گوہر بے بہا ہے
میں ہستی کے ساحل کا مبہوت و حیراں مسافر

مرے زرد چہرے پہ جمتی ہوئی ریت
میرا سرکتا ہوا جسم

سب کی نگاہوں کا مرکز بنا ہے
مگر کوئی ایسا نہیں

کوئی بھی تو نہیں
جو مری منجمد گہری جھیلوں سے گزرے

مرے دل کے قلزم میں اترے
جہاں کی ہر اک موج درد آشنا ہے

ہر اک قطرۂ آب انمول ہے گوہر بے بہا ہے
جہاں روح تن سے جدا ہے

ازل کے مسافر کی منزل ابد ہے بقا ہے