سمندر اگر میرے اندر آ گرے
تو پایاب لہروں میں ڈھل کے سلگنے لگے
پیاس کے بے نشاں دشت میں
وہیل مچھلی کی صورت تڑپنے لگے
ہارپونوں سے نیزوں سے چھلنی بدن پر
دہکتی ہوئی ریت کے تیز چر کے سہے
اور پھر ریت پر جھاگ کے کچھ نشاں چھوڑ کر
تا ابد سر بریدہ سے ساحل کے سائے میں
ہونے نہ ہونے کی میٹھی اذیت میں کھویا رہے
یہ ہونے نہ ہونے کی میٹھی اذیت بھی کیا ہے
نگاہیں اٹھاؤں تو حد نظر تک
ازل اور ابد کے ستونوں پہ باریک سا ایک خیمہ تنا ہے
نہ ہونے کا یہ روپ کتنا نیا ہے
اور خیمے کے اندر
کروڑوں ستاروں کا میلہ لگا ہے
یہ ہونے کا بہروپ لا انتہا ہے
مرا جسم
ریشم کا صد چاک خیمہ
کسی بے کراں دشت میں بے سہارا کھڑا ہے
مگر جب میں آنکھیں جھکاؤں
تو اس سرد خیمے کے اندر
کروڑوں تڑپتے ہوئے تند ذروں کا اک دشت پھیلا ہوا ہے
یہ ہونے نہ ہونے کی میٹھی اذیت
عجب ماجرا ہے
نظم
سمندر اگر میرے اندر آ گرے
وزیر آغا