EN हिंदी
سمے کو اٹکا دیا | شیح شیری
samay ko aTka diya

نظم

سمے کو اٹکا دیا

کمل اپادھیائے

;

کلائی کی گھڑی کو
آج بڑے پیار سے اتارا

اور اس کی کنجی کو کھینچ کر
ایک اسپھل پریاس کیا

گھڑی کو روکنے کا
پھر بھی جب نا مانی گھڑی

تو
چٹکا کر اس کا کانچ

کچھ گھاووں سے
اس کی ایک سوئی کو توڑ دیا

گھڑی بھی ضدی قسم کی ہے
رکنے کا نام نہیں ہے لیتی

کتنا مشکل ہے
وقت کو پکڑ کر رکھنا

یا باندھنا اسے کسی واقعے کے ساتھ
کچھ بگڑے گا کیا اس کا

یدی وو کچھ دیر ٹھہر جائے گا تو
آخر میں ایک سوئی کو

پکڑ کر موڑ دیا
کچھ اس طرح کہ

اٹک جائے وو وقت وہی
میں ان لمحوں کو محسوس کرتا رہوں

وو لمحہ جہاں میں کچھ بھی نہیں
لیکن غم بھی نہیں

میرے کچھ نا ہونے کا
اب اٹکا کر سمے کو

میں موج مناؤں گا